قانون ساز کونسل کے رکن اروند یادو کا دعویٰ ہے کہ کرہل اسمبلی سیٹ سے ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کے میدان میں اترنے کے بعد یادو لینڈ کی اسمبلی سیٹوں پر بڑے پیمانے پر عوامی حمایت محسوس کی جا رہی ہے۔
اٹاوہ: سماج وادی پارٹی (ایس پی) سربراہ اکھلیش یادو کے آبائی گاؤں سیفئی سے محض چار کلو میٹر دوری پر واقع مین پوری ضلع کی کرہل اسمبلی سیٹ پر الیکشن لڑنے کے اعلان کے بعد ایس پی سربراہ کے اس فیصلے کے سیاسی معنی نکالے جانے لگے ہیں، سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ سماج وادی بلٹ مانے جانے والے آٹھ اضلاع کی 29 اسمبلی سیٹوں پر ایس پی اپنی نظر جمائے ہوئے ہے۔ ان سیٹوں پر سال 2012 میں ایس پی سب سے مضبوط ہوکر ابھری تھی جب کہ 2017 کے الیکشن میں ایس پی کو اس پٹی میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ایس پی نے ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا سیاسی میدان دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بڑا داؤ لگایا ہے۔
اکھلیش یادو کے کرہل اسمبلی حلقہ سے الیکشن لڑنے کا مطلب ہے کہ سیفئی ان آٹھ اضلاع کے الیکشن کا مرکز بنے گا اور ایس پی کی انتخابی حکمت عملی لکھنؤ میں نہیں سیفئی سے طے کی جائے گی۔ ایس پی سرپرست ملائم سنگھ یادو نے اٹاوہ اور سیفئی کو اپنی انتخابی مہم کے مرکز میں رکھتے تھے۔ فیروز آباد، ایٹہ، کاس گنج، مین پوری، اٹاوہ، اوریا، قنوج، فرخ آباد کل آٹھ اضلاع کو سماج وادی پارٹی کا بیلٹ مانا جاتا ہے۔ یہ علاقہ ممتاز سوشلسٹ مفکر ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کا کام گاہ بھی رہا ہے۔ اسی وجہ سے سماج وادی نظریہ کا سب سے زیادہ اثر یہاں کی سیاست میں رہا ہے۔
ملائم سنگھ یادو نے بھی اس علاقے کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا۔ ان اضلاع میں اپنا تسلط قائم کرنے کے بعد ہی وہ ریاست کی سیاست کا محور بن سکے۔ سال 2012 کے اسمبلی انتخابات میں ان آٹھ اضلاع کی 29 سیٹوں میں سے ایس پی کو 25 اور بی ایس پی، بی جے پی کو ایک ایک اور ایک سیٹ آزاد امیدوار کے کھاتے میں گئی تھی۔ مین پوری سے ملائم، جسونت نگر سے شیو پال سنگھ یادو اور قنوج سے اکھلیش یادو اور ان کی بیوی ڈمپل یادو اس پوری پٹی کی صف بندی کے لئے مل کر کام کرتے تھے۔ سال 2012 کے اسمبلی انتخابات میں ایس پی نے اس پٹی پر اپنا دبدبہ دکھاتے ہوئے ریاست میں حکومت بنائی۔ ضلع قنوج کو اپنی کام گاہ بنانے والے اکھلیش یادو ریاست کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔
سال 2017 کے اسمبلی انتخابات میں اکھلیش یادو اور ان کے چچا شیو پال سنگھ یادو کے درمیان سیاسی اختلافات کا خطے کے انتخابی صف بندی پر سب سے زیادہ اثر پڑا اور انتخابی نتائج بالکل برعکس تھے۔ ایس پی 25 سیٹوں سے صرف چھ سیٹوں تک محدود ہوگئی۔ بی جے پی ایک سیٹ کے مقابلے 22 سیٹوں پر کامیاب رہی۔ سماج وادی پٹی میں ایس پی کی اتنی خراب کارکردگی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اپنے ہی قلع میں شکست خوردہ ایس پی کو ریاست میں اقتدار سے باہر ہونا پڑا اور اقتدار بی جے پی کے ہاتھوں میں پہنچ گیا۔
گزشتہ انتخابی نتائج سے سبق لیتے ہوئے اس بار ایس پی نے اپنے اسی سیاسی قلعے کو مضبوط کرنے کی حکمت عملی تیاری کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کرہل سے اور چچا شیو پال سنگھ یادو جسونت نگر سے الیکشن لڑیں گے۔ یہاں سے آٹھ اضلاع کی 29 سیٹوں پر انتخابی ماحول کو اپنے حق میں کرنے کا تانہ بانہ بنا جائے گا۔ ایس پی اپنا کھویا ہوا سیاسی میدان دوبارہ حاصل کرنے اور بی جے پی کی جیت کی رفتار کو دوبارہ کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ آنے والے وقت میں سیفئی ایس پی کی انتخابی مہم کا مرکزہوگا جہاں ایس پی کے قومی جنرل سکریٹری پروفیسر رام گوپال یادو اور اکھلیش یادو 2012 کی کامیابی کو دوبارہ دہرانے کی حکمت عملی تیار کریں گے۔ ملائم سنگھ یادو نے ہمیشہ سماج وادی پارٹی میں اپنی سیاسی گرفت مضبوط رکھی۔ کرہل اسمبلی حلقہ ان کے سیاسی گرو چودھری نتھو سنگھ یادو کا آبائی حلقہ ہے۔
نتھو سنگھ نے 1967 میں جسونت نگر اسمبلی سیٹ ملائم سنگھ یادو کو سونپی تھی۔ پہلی بار ملائم سنگھ یادو یہیں سے اسمبلی پہنچے۔ الیکشن چاہئے اسمبلی کا ہو یا پھر پارلیمنٹ کا ملائم سنگھ یادو اپنی انتخابی مہم کے مرکز میں اٹاوہ کو ہی رکھتے رہے۔ اب اکھلیش نے بھی یہی انتخابی حکمت عملی اپنائی ہے۔ کرہل سے پہلی بار اسمبلی الیکشن لڑ کر اس وراثت کو بچانے کی حکمت عملی پر کام کریں گے۔ اپنے والد کی طرح اپنی انتخابی مہم کا مرکز سیفئی کو بنائیں گے۔
سیاسی تجزیہ کار ادے بھان سنگھ کے مطابق کرہل اسمبلی سیٹ سے ایس پی سربراہ کے الیکشن لڑنے سے یادو بیلٹ میں سماج وادی پارٹی کے حق میں بڑا ماحول بنے گا۔ سال 2017 میں یادو بلٹ میں ایس پی کو بڑا نقصان اسی بیلٹ میں ہوا تھا، اب ایسا مانا جا رہا ہے کہ اگر اکھلیش یادو کے انتخابی میدان میں اتر نے سے ایس پی کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ پارٹی کے قانون ساز کونسل کے رکن اروند یادو کا دعویٰ ہے کہ کرہل اسمبلی سیٹ سے ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کے میدان میں اترنے کے بعد یادو لینڈ کی اسمبلی سیٹوں پر بڑے پیمانے پر عوامی حمایت محسوس کی جا رہی ہے۔ ہر طرف سے خبریں آرہی ہیں کہ اب سماج وادی پارٹی کو کسی بھی سیٹ پر جیت کا پرچم لہرانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
قومی آواز