عالمی شہرت یافتہ ہندوستانی مصور مقبول فداحسین 97 سال کی عمر میں 9 جون 2011 کو لندن کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے ہیں۔
ممبئی: دنیا میں بہت کم ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں، جنہوں نے نہ صرف زندگی میں بے پناہ شہرت حاصل کی، مرنے کے بعد بھی برسوں تک لوگ انہیں بھولا نہیں پائے۔ عظیم مصور مقبول فدا حسین کی پیدائش 17 ستمبر 1915 میں ہندوستان کے ایک چھوٹے سے علاقے میں ہوئی تھی۔ گھرانہ مذہبی سلیمانی بوہرہ تھا جو داؤدی بوہروں سے جدا ایک چھوٹا سا فرقہ ہے۔ ان کی مادری زبان گجراتی تھی۔ انہیں بچپن سے ہی مصوری کا شوق تھا۔ انہوں نے ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کے پوسٹر بنانے شروع کردیئے تھے۔
فدا حسین کے والد نے بہت چاہا کہ وہ کاروبار کی طرف مائل ہو جائیں لیکن ان کا رجحان تو پیٹنگ کی جانب تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی آئل پینٹنگ دکان پر ہی بیٹھ کر بنائی۔ ان کے چچا جنہیں یہ دکان ان کے باپ ہی نے بنا کر دی تھی، یہ دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور ان کے باپ کو بتایا۔ جب ان کے والد نے وہ تصویر دیکھی تو مقبول حسین کو گلے لگا لیا۔ ان کے باپ نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور کہا ‘‘ بیٹا جاؤ اور اپنی زندگی کو رنگوں سے بھر دو، ان کے باپ کے ان الفاظ کے ساتھ یہاں سے حسین کی پیشہ ورانہ فنی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
سال 1934 میں اندور کی ایک سڑک کنارے حسین کی پہلی تصویر دس روپے میں فروخت ہوئی اور اس کے بعد حسین نے مانو مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ ایم ایف حسین نے چار آنے سے ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے کمانے تک کا سفر یوں ہی اور آسانی سے طے نہیں کیا بلکہ برسوں کی محنت اور اپنے کام سے لگن کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچے۔ حقیقت تو یہ ہے ایک مصور کی حیثیت سے ان کی پہچان 1940 میں ہوئی تھی جبکہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر کی پہلی باقاعدہ نمائش 1947ء میں ہوئی تھی۔ پچاس کی دھائی سے وہ ترقی پسند فنکاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ 60 کے عشرے سے انہیں ہندوستان کا نہایت تجربہ کار اور منجھا ہوا مصور شمار کیا جانے لگا۔
ان کا اپنا مخصوص لائف اسٹائل تھا۔ وہ نگے پاوٴں رہا کرتے تھے۔ اپنی گاڑی کو بھی انہوں نے اپنی پسند کے مختلف رنگوں میں خود پینٹ کیا ہوا تھا۔ انہیں ہندوستان کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا جس میں ‘پدم بھوشن’ بھی شامل ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کے لئے بھی نامزد کیا گیا۔ جس قدر ایوارڈز انہیں ملے، ان کا شمار بھی ایک مشکل امر ہے۔ ایک وقت ایسا آیا جب ان کی شہرت ہندوستان کی سرحدوں سے نکل کر بیرون ملک جا پہنچی اور انہیں ‘ ہندوستان کا پکاسو’ کہہ کر پکارا جانے لگا۔ دریں اثناء راگ مالا سیریز کے لئے بنائی گئی ان کی ایک تصویر لندن کے کرسٹیز نیلام گھر میں لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوئی۔ انہوں نے بیرون ملک ہندوستان کی ثقافت، کلچر اور مذہبی روایات کو اپنے انداز میں متعارف کرایا۔ وہ ہندوستان کے ان چند عظیم مصوروں میں سے ایک تھے جن کے بنائے ہوئے شاہکار کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں آسمان چھوتی ہیں۔ اپنے انتقال سے صرف چار روز پہلے ہی ان کا ایک شاہکار، جس کا نام انہوں نے ‘ ہارس اینڈ وومن ‘ رکھا تھا، لندن میں ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے میں فروخت ہوا۔
مقبول فدا حسین کی 3 پینٹنگس بان ہیم آکشن میں سب سے زیادہ قیمت پر نیلام کی گئی۔ ان کی آئیل پینٹنگ پر 2.32 کروڑ روپیے قیمت آئی۔ ان کی ایک پینٹنگ جو ایک خاتون اور ایک گھوڑے پر مشتمل تھی، 1.23 کروڑ میں نیلام ہوئی۔ ایم ایف حسین کا ایشیا کے ان امیر ترین مصوروں میں شمار ہوتا تھا جن کے فن پارے مہنگے داموں فروخت ہوتے تھے۔ انھیں 1971ء میں عالمی شہرت یافتہ مصور پابلو پکاسو کے ساتھ ساؤپولو میں منعقدہ مصوری میلے میں مدعو کیا گیا تھا جہاں انھیں فوربس میگزین نے ”ہندوستان کا پکاسو” کے خطاب سے نوازا تھا۔
ایم ایف حسین شارٹ فلمیں بنانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ سن 1994 میں جب ان کی نگاہ مادھوری دیکشت پر پڑی تو وہ ان کی خوب صورتی اور حسن کے دلدادہ ہوگئے تھے۔ انہوں نے مادھوری کے ساتھ ‘گج گامنی’ کے نام سے’ ٹیل آف تھری’ سیریز بنائی جس میں انہوں نے مادھوری کو اس قدر خوب صورتی کے ساتھ پینٹ کیا کہ نئی نسل میں ان کی شہرت کی وجہ ہی مادھوری کی پینٹنگس بن گئیں۔ انہیں مادھوری کے فن سے دیوانگی کی حد تک لگاوٴ تھا۔ حسین صاحب کو مادھوری کی ایک فلم “ہم آپ کے ہیں کون” اس قدر پسند تھی کہ انہوں نے اسے 70 مرتبہ دیکھا۔
اس سے قبل 1967ء میں انہوں نے برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اپنی دستاویزی فلم ‘تھرو دی آئیز آف اے پینٹر’ کے لئے’ گولڈن گلوب ایوارڈ’ حاصل کیا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی شارٹ فلمیں بنائیں۔ وہ اپنی لگن اور زبان دونوں کے بڑے پکے تھے۔ نڈر تھے، کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی آپ بیتی بھی شائع ہوچکی ہے۔
ایم ایف حسین کی پینٹنگس پر جہاں ایک طرف کئی گوشوں سے ستائش کی گئی تھی وہیں دوسری طرف ان کو تنقیدوں کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ ستر کی دہائی میں ان کی شہرت نے ایک نیا موڑ لیا۔ وہ یکایک متنازعہ حیثیت اختیار کرگئے۔ انہوں نے کچھ ہندو دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر بنائیں جس کا جواز ان کے پاس یہ تھا کہ اجنتا اور ایلورا کی تاریخی وادیوں میں بھی اسی طرح کے دیوی دیوتاوٴں کے مجسمے ہیں لہذا اگر انہوں نے اپنے کینوس پر انہیں اتارا ہے تو اس میں کیا حرج ہے لیکن ان کا جواز کسی طرح قابل قبول نہ ہوا۔ سپریم کورٹ سمیت مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جانیں لگیں۔ ایک تنظیم نے ان کے سر کی قیمت گیارہ اعشاریہ پانچ ملین روپے مقرر کی جس کے بعد وہ 2006 میں جلا وطنی پر مجبور ہوگئے۔
ستمبر 2007 میں کیرالہ ہائی کورٹ نے فدا حسین کو ایوارڈ دینے پر پابندی عائد کردی۔ کیرالہ حکومت نے اس سال مصوری کا معروف ”راجہ روی ورما ایوارڈ، فدا حسین کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ستمبر 2008 میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے مقبول فدا حسین کی ایک متنازعہ پینٹنگ کے سلسلے میں فنکار کے کام کا دفاع کرتے ہوئے فن کا نمونہ قرار دیا اور ان کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی گئی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ملک میں لاتعداد فحش مجسمے اور تصویریں عام ہیں، ان سے لوگوں کے جذبات کیوں مجروح نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی ان کے خلاف دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پینٹنگ فحش نہیں۔ عالمی شہرت یافتہ ہندوستانی مصور مقبول فداحسین 97 سال کی عمر میں 9 جون 2011 کو لندن کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے ہیں۔
Courtesy: Qaumi awaz