کیا این سی ای آر ٹی اور حکومت کے ذمہ دار مولانا آزاد کے نام کا حوالہ بھی گوارہ نہیں کر سکتے۔ یہ سوال بھی ہے کہ کیا ان کا نام محض ان کے مذہب کی وجہ سے نکالا گیا ہے۔
سرکاری اسکولوں کے لیے نصابی کتابیں تیار کرنے والے ادارے این سی ای آر ٹی کی جانب سے گیارہویں اور بارہویں کی کتابوں سے مغل تاریخ کو ہٹانے کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم، مجاہد آزادی، انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر، صحافی اور مصنف و دانشور مولانا ابوالکلام آزاد کا حوالہ بھی نصاب کی کتاب سے خارج کر دیا گیا۔ گیارہویں کلاس کی پولیٹیکل سائنس کی کتاب کے ایک سبق میں اب تک پڑھایا جاتا رہا ہے کہ آئین ساز اسمبلی سے متعلق کئی کمیٹیاں تھیں جن کی صدارت عام طور پر پنڈت جواہر لعل نہرو، راجندر پرساد، سردار پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد اور بی آر امبیڈکر کیا کرتے تھے۔ لیکن اب اس فقرے سے مولانا آزاد کا نام نکال دیا گیا جبکہ باقی کے نام رہنے دیئے گئے ہیں۔
اس سے قبل جب مغل تاریخ، مہاتما گاندھی اور ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے اور گجرات فسادات کے بارے میں تفصیلات حذف کی گئیں تو یہ کہا گیا کہ نصاب کو ریشنلائز کیا گیا ہے یعنی اس کو حقیقت پسندانہ بنایا گیا ہے۔ این سی ای آر ٹی نے یہ بہانہ بھی گھڑا کہ کرونا دور میں طالب علموں پر بہت زیادہ بوجھ تھا جسے کم کر دیا گیا ہے۔ حکومت اور بی جے پی کے ذمہ داروں کا کہنا تھا کہ فالتو چیزیں ہٹا دی گئی ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک جو تفصیلات ہٹائی گئی ہیں وہ فالتو تھیں۔ جو لوگ اس قسم کے خیالات رکھتے ہیں ان کی عقلوں پر ماتم کرنے کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
اس پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ اگر مغلوں کی تاریخ نہیں پڑھائی جائے گی تو مغل دور کی عمارتوں کو کس کے نام سے منسوب کیا جائے گا اور کیا طالب علم ایک بڑے عہد کی تاریخ سے نابلد نہیں رہ جائیں گے۔ اس سوال کا کوئی جواب ذمہ داروں کے پاس نہیں ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مغلوں کی تاریخ نہیں پڑھانی چاہیے حالانکہ کوئی بھی ذی ہوش شخص اس کی حمایت نہیں کرے گا، تاہم یہ کہاں تک مناسب ہے کہ صف اول کے مجاہد آزادی اور ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد کے ساتھ ایسی زیادتی کی جائے کہ ان کا حوالہ ہی نکال دیا جائے۔ کیا این سی ای آر ٹی اور حکومت کے ذمہ دار مولانا آزاد کے نام کا حوالہ بھی گوارہ نہیں کر سکتے۔ یہ سوال بھی ہے کہ کیا ان کا نام محض ان کے مذہب کی وجہ سے نکالا گیا ہے۔
اگر مولانا آزاد کے علمی کاموں کو الگ رکھ دیا جائے تو بھی ملک کے لیے ان کی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ انھیں کوئی بھی شخص نظرانداز نہیں کر سکتا۔ ان کی خدمات کے اعتراف ہی میں انھیں ملک کا سب سے اعلیٰ اعزاز بھارت رتن دیا گیا۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار اور تقسیم ملک یا قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے۔ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ اگر آسمان سے فرشتہ اتر کر آئے اور کہے کہ تم ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہو جاؤ تو ابھی آزادی مل جائے گی، تو میں کہوں گا کہ مجھے ایسی آزادی نہیں چاہیے۔
مولانا آزاد نے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے جو خدمات انجام دیں وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ انھوں نے پورے ملک میں اسکولوں اور کالجوں کا جال بچھایا۔ انھوں نے پہلی بار تعلیم نسواں اور تعلیم بالغاں کا تصور پیش کیا۔ انھوں نے تکنیکی تعلیم کے فروغ کے لیے آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کا قیام کیا۔ صنعت و حرفت کی تعلیم کو بڑھاوا دینے کے لیے انھوں نے کئی ادارے بنائے۔ انھوں نے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف ہائر سکنڈری کھڑک پور کا قیام کیا۔ انھوں نے سائنسی علوم کو پروان چڑھانے کے لیے سائنسی تعلیمی ادارے بنائے۔
انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور یونیورسٹیوں یا دانش گاہوں کے نظم و ضبط کو بہتر بنانے اور علمی فروغ میں مالی معاونت کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن یا یو جی سی قائم کیا جو آج اعلیٰ تعلیم کے میدان میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ مولانا آزاد ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو بھی پروان چڑھانے اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے ساہتیہ اکادمی اور للت کلا اکادمی جیسے باوقار اداروں کی بنیاد ڈالی۔ انھوں نے ہندوستانی ثقافت کو عالم عرب میں روشناس کرانے کے لیے مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کی ادارت میں ”ثقافت الہند“ نامی عربی مجلے کا اجرا کیا۔
مولانا آزاد کی شخصیت کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے اور کس کس کو چھوڑا جائے۔ ویسا عبقری شخص ماضی قریب میں نہ پیدا ہوا اور نہ ہی مستقبل قریب میں پیدا ہونے کی کوئی امید ہے۔ لیکن وائے افسوس کہ اب ان کی خدمات کو بھی مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کی زبان پر بڑی مشکل سے ان کا نام آتا ہے۔ نئی دہلی کے آئی ٹی او کے علاقے میں آزاد بھون میں ان کی یادگار کے طور پر ”گوشۂ آزاد“ کے نام سے جو گوشہ قائم کیا گیا تھا وہ اب بند کر دیا گیا ہے۔ وہاں گرد و غبار نے قبضہ جما لیا ہے۔
ماہرین تعلیم اور سیاست دانوں کی جانب سے مولانا آزاد کا نام ہٹائے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔ کانگریس نے اسے تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش اور جھوٹ کی بنیاد پر ورثے کی تشکیل قرار دیا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو غیر حقیقی چیزیں پڑھائی جائیں۔ اس نے چودھ سال کی عمر تک تعلیم کو لازمی قرار دینے والے ملک کے پہلے وزیر تعلیم کے نام کو نصاب سے حذف کرنے کو انتہائی شرمناک قرار دیا ہے۔ کانگریس کے بقول مولانا آزاد ایک عظیم مجاہد آزادی، گاندھی جی کے پیرو، سوراج اور سودیشی کی حمایتی اور آئین ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ جھوٹی تاریخ لکھنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس سے کوئی بھی شخص نہیں بچے گا۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل مغلوں کی تاریخ حذف کرنے کے علاوہ گجرات فسادات کا حوالہ نکالا گیا اور اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کی جانے والی یہ نصیحت بھی نکال دی گئی کہ آپ راج دھرم کا پالن کریں۔ گاندھی جی کے بارے میں پہلے یہ پڑھایا جاتا رہا ہے کہ ان کو وہ لوگ ناپسند کرتے تھے جو کٹر ہندو تھے اور اسی وجہ سے ان کا قتل ہوا تھا۔ اس حوالے کو بھی نکال دیا گیا۔
کوئی تعجب نہیں کہ اگلی بار پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو ہی کا نام نکال دیا جائے۔ جس طرح نریندر مودی پنڈت نہرو کے خلاف بیان بازی کرتے رہتے ہیں اور وہ اور بی جے پی و آر ایس ایس کے رہنما ملک کے تمام مسائل کی جڑ پہلے وزیر اعظم نہرو کو ہی ٹھہراتے ہیں اس کی روشنی میں ان کے نام کو حذف کرنا کوئی بعید نہیں ہے۔ دراصل ہندوستان کی جنگ آزادی میں آر ایس ایس کا کوئی کردار نہیں تھا۔ بلکہ آر ایس ایس والے تو جنگ آزادی کے ہی خلاف تھے۔ وہ لوگ انگریزوں کی وفاداری میں مصروف رہے ہیں۔ ونایک دامودر ساورکر نے تو جانے کتنی بار انگریزوں سے معافی مانگی تھی جس کا ذکر راہل گاندھی کرتے رہے ہیں۔ راہل گاندھی کی جانب سے ساورکر کے معافی نامے کو اچھالنے پر آر ایس ایس اور بی جے پی والے چراغ پا ہو جاتے ہیں۔
اگر 2024 کے انتخابات کے بعد بھی یہی لوگ برسراقتدار آگئے تو پھر ہندوستان کی پوری تاریخ بدل دی جائے گی۔ بہت سے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئین کو ہی ختم کر دیا جائے گا۔ آر ایس ایس کی جانب سے آئین کو بدلنے کی باتیں بار بار کی جاتی رہی ہیں۔ اگر یہ لوگ پھر حکومت میں آگئے تو ابھی تو گاندھی اور آزاد نصاب سے ہٹائے گئے ہیں اس کے بعد پنڈت نہرو اندرا گاندھی کی خدمات کو بھی حذف کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا جنگ آزادی اور ملک کی تعمیر میں کوئی کردار نہیں ہے اس لیے یہ لوگ نہیں چاہتے کہ دوسروں کا بھی ذکر ہو۔ دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یہ لوگ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ احساس کمتری اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تئیں تعصب کا ہی نتیجہ ہے کہ مولانا آزاد کا حوالہ بھی انھیں گوارہ نہیں ہے۔
Source: QaumiAwaz