بی جے پی کے داخلی ذرائع نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ سی اے اے کے خلاف احتجاج نے مودی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر ایک’تانا شاہ‘ حکومت کے طور پر متعارف کرایا ہے
واب علی اختر
اقتدار کے نشے میں چور بی جے پی اوراس کے حواریوں کی جانب سے حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو’غدار‘اور’پاکستان حامی‘ کہے جانے سے یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ بھگوا بریگیڈ اپنی عارضی طاقت کے زعم میں ملک کے سیکولر شہریوں کی صدائے احتجاج کو دبانے اورحکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ہرگز برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حالانکہ اظہار رائے کی آزادی ہندوستان کی منفرد شناخت رہی ہے مگرعوام کوتقسیم کرنے والی پالیسی پر گامزن ایک طبقہ لگاتار ملک کی روایت کو کچلنے اور اپنے نظریات کوتھوپنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔انہیں تنازعات کی وجہ سے حالیہ کچھ عرصے میں حکمراں فریق کی حرکتوں سے عالمی سطح پرہندوستان کی شبیہ متاثرہوئی ہے مگران سب کا ’راشٹر بھگتوں‘ کی صحت پرکوئی اثرپڑتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ہندوستان کی تاریخ میں شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے جب حکومت کے کسی فیصلے کے خلاف شہریوں کا ہر طبقہ سراپا احتجاج ہے۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دہلی ، ممبئی ، بنگلور ،چنئی ، حیدرآباد ، لکھنو اور دیگر کئی بڑے شہروں میں تقریباً دوماہ سے مسلسل دھرنے اورمظاہرے ہورہے ہیں۔ ان جلسوں کے ذریعہ شہریت ترمیمی قانون، نیشنل رجسٹر آف سٹیزن(این آرسی) اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر(این پی آر) کے خلاف منظرعام پرآنے والے بین مذاہب قومی اتحاد سے حکمراں بی جے پی پر بظاہر کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے لیکن بی جے پی کے داخلی ذرائع نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ سی اے اے کے خلاف احتجاج نے مودی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر ایک ’تانا شاہ‘ حکومت کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ جلسوں میں شریک افراد وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔اس دوران مودی اور شاہ سے آزادی کے نعرے کہیں شدت سے لگ رہے ہیں۔ ایسے ہی نعروں اور مظاہروں کے حوالے سے پولس نے احتجاجیوں کے خلاف ملک دشمن عناصر قرار دے کر غداری کے مقدمات درج کردیئے ہیں۔
مظاہرین کوڈرانے اور احتجاج ختم کرانے کے لیے حکومت اورانتظامیہ کی جانب سے اختیار کیے جانے والے طریقوں کی ہندوستان کے ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پرتنقید کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ چند روز قبل ہی سپریم کورٹ کے جج ڈی وائی چندرچوڑ نے حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی بیباکی کے ساتھ کہا تھا کہ اختلاف جمہوریت کا ’سیفٹی والو‘ ہے۔ اختلاف کو ایک سرے سے ملک مخالف اور جمہوریت مخالف بتا دینا آئینی اقدار کے تحفظ اور تبادلہ خیال کرنے والی جمہوریت کو فروغ دینے کے تئیں ملک کے عزائم کے بنیادی خیال پر چوٹ کرتا ہے۔ جسٹس چندرچوڑ کا کہنا تھا کہ آئین سازوں نے ہندو بھارت یا مسلم بھارت کے خیال کو مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے صرف بھارت جمہوریہ کو منظوری دی تھی۔ اختلاف پر کنٹرول کے لئے سرکاری مشینری کا استعمال خوف کا احساس پیدا کرتا ہے جو قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
اس سے دوروزقبل ایک مقدمہ میں ممبئی ہائی کورٹ (آورنگ آباد بنچ ) نے اہم فیصلہ میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت منظورشدہ حکم کو کالعدم قراردے دیا۔ ہائی کورٹ کے جسٹس ایم جی سیولیکر اور جسٹس ٹی وی فلا وارے پر مشتمل ڈ ویژن بنچ نے احتجاج کرنے والے ضلع بیڑ کے مجلگاو ں کے شہری افتخار شیخ کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ احتجاجی افراد کو غدار یا ملک مخالف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عدالت نے احتجاجیوں کو غداری کے مقدمہ میں پھنسانے کے خلاف اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو غدار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ محترم جج صاحبان نے ہندوستان کی تاریخ کے حوالے سے یہ بات بھی یاد دلائی کہ ہندوستان کو آزادی بھی احتجاج کے ذریعہ ہی حاصل ہوئی ہے۔ ہندوستانی عوام نے انگریزوں کے تسلط کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہندوستان کو آزادی دلائی تھی۔ اب افسوس اس بات کا ہے کہ ہندوستانی عوام کو اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا پڑرہا ہے۔
دہلی کے شاہین باغ سے اٹھی تحریک سے ترغیب حاصل کرکے ممبئی کے آزاد میدان ، پٹنہ کے سبزی باغ ، لکھنو کے گھنٹہ گھر تک کے احتجاج نے سارے ملک کے لیے ایک مثال قائم کردی ہے۔ کوئی شہری کسی کالے قانون کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرے تو دستور اس کو احتجاج کرنے کا حق دیتا ہے اور یہی جمہوری ہندوستان کی شان ہے مگر مودی حکومت ہر اس احتجاج کو کچلنے کی کوشش کرتی رہی ہے جو اس کے ذریعہ لائے گئے متنازعہ قوانین کی مخالفت میں کیا جارہا ہے۔ بی جے پی قائدین نے چند لوگوں کے ووٹ لے کر اقتدار حاصل کر کے یہ غلط فہمی پیدا کرلی ہے کہ وہ اب اختیار کل کی مالک ہے ، کچھ بھی کرسکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ دستور اور جمہوری اصولوں کے خلاف اٹھنے والا ہر قدم پیچھے ہٹا دیا جائے گا۔ فی الحال مودی حکومت اور اس کی تا بعداری کرنے والی پولس نے احتجاجیوں پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں غداری کے کیس میں پھا نسنا شروع کیا ہے۔ جوایک جمہوری ملک کی توہین کہا جائے گا۔
دسمبر 2019 کو پارلیمنٹ میں منظور سی اے اے کے خلاف اترپردیش میں احتجاج کرنے والوں کو جہاں جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے وہیں مظاہرے کے دوران شرپسندوں کے گناہوں کی سزا پر امن مظاہرین کودی جارہی ہے۔ان کو املاک قرقی کے نوٹس بھیجے جارہے ہیں،تشدد کے سبب ہوئے نقصان کی تلافی مظاہرین سے کی جارہی ہے۔اسی طرح کرناٹک میں 194مظاہرین کو غداری کے مقدمات میں ماخوذ کیا گیا لیکن اس سے ہٹ کر ملک بھر میں اس سے پہلے بھی غداری کے کیس دائر کئے جاچکے ہیں۔ سال18-2017 میں ہی غداری کے کئی کیس درج کئے گئے تھے جو مودی حکومت کے خلاف اظہار خیال کی پاداش میں تھے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو ( این سی آر پی ) کے ڈیٹا کے مطابق 3 سال کے دوران 156 غداری کے کیس درج ہوئے ہیں۔ ان تمام حقائق کے درمیان سی اے اے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شدت سے جاری ہے۔
source: QaumiAwaz