واشنگٹن۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کے روز کہاکہ عراق میں امریکی دستے سال کے آخر اپنا جنگی مشن ختم کردیں گے وہیں عراقی دستوں کی مدد اور تربیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
زنہو کی نیوز کے مطابق مذکورہ اوال دفتر میں عراق کے وزیراعظم مصطفی الخدیمی سے ملاقات کی شروعات میں بائیڈن نے کہاکہ ”عراق میں ہمارے رول تربیت او رمدد کے جاری رہے گا تاکہ ائی ایس ائی ایس (دعوۃ اسلامی) سے نمٹنے میں مد د کی جاسکے کیونکہ اس میں اضافہ ہے‘ مگر سا ل کے آخر تک ہم جنگی مشن میں نہیں رہنے والے ہیں“۔
انہوں نے کہاکہ ”ہمارا مخالف دہشت گردی تعاون اس نئے مرحلے کی تبدیلی کے بعد بھی جاری رہے گا“۔ ایک نامور میڈیا ادارے کو اپنے اس دورے کے پیش نظر الخدیمی نے کہاتھا کہ عراق میں موقف کی غیر ملکی جنگی دستوں کی کوئی ضرورت یہاں پر نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ ”عراق میں امریکی کی موجودگی میں ہم کیاچاہتے ہیں وہ سکیورٹی تعاون میں اور صلاحیت میں ترقی اور چستی کے لئے ہمارے دستوں کی تربیت ہے“۔
فی الحال یہاں عراق میں امریکہ کے 2500دستے ہیں۔ وائٹ ہاوز کے پریس سکریٹری نے پیر کے روز سال کے آخر میں عراق میں دستوں کے توقف کی تعداد فراہم کرنے سے انکار کردیاتھا۔
امریکہ میڈیا کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے امریکی فوج کی عراق میں موجودگی کے معاملے میں کوئی نمایاں کمی نہیں ائے گی‘ زیادہ تر امریکی دستے پہلے ہی عراقی دستوں کے لئے مشاورتی رول اور تربیت دینے کاکا م کررہے ہیں۔
اپریل میں ان دونوں ممالک نے دستوں کی مشن سے واپسی پر رضامندی ظاہر کی تھی مگر منتقلی کے وقت کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ عراقی لیڈران کو ملک سے تمام امریکی دستوں کو باہر نکالنے کا سخت شیعہ کارکنان کی جانب سے گھر میں دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اکٹوبر کے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر الخدیمی کے لئے امریکی دستوں کے مشن کی منتقلی سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش نظر آرہی ہے۔ سال 2011میں امریکہ دستوں کی عراق سے دستبرداری ہوگئی تھی‘ امریکہ کی جانب سے مداخلت کے اٹھ سالوں بعد یہ کام انجام دیاگیاتھا۔
عراق میں دعوۃ اسلامی کے دہشت گردوں سے لڑائی میں عراقی دستوں کی مدد کے لئے 2014میں امریکی دستے دوبارہ ملک میں واپس ائے تھے۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی اتحادی لیڈر ابو مہدی المہندس کی بغداد ائیر پورٹ پرامریکی فضائی حملے میں موت کے فوری بعد جنوری 2020میں عراق پارلیمنٹ نے عراق میں غیر ملکی دستوں کی موجودگی کو ختم کرنے کی ضرورت پر حکومت نے ایک قرارداد منظورکی تھی۔
ملک بھرمیں امریکی دستوں کے ٹھکانوں اور سنٹرل بغداد کے گرین زون میں امریہ سفارت خانہ پر ایران کی حمایت والے شیعہ اتحادکی جانب سے راکٹ اور ڈرون حملوں کو انجام دینے کاکام کیاجاتا رہا ہے۔
فبروری اور جون میں سیریااورعراق میں امریکہ فوی نے شیعہ اتحاد کے خلاف فضائی حملوں کی شروعات کی تھی‘ جس کے بعد مزید حملے اور جارحانہ کاروائیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
عراق کے مغربی صوبہ برائے عنبر میں امریکی زیر قیادت اتحادی دستوں کے ٹھکانہ الاسد فضائی پٹی پر اس ماہ کے ابتداء میں 14راکٹ داغے گئے‘ جس کی وجہہ سے معمولی چوٹیں ائیں ہیں