عرش علی
یوں تو شہرِ لکھنؤ میں متعدد صوفیاء کرام گزرے ہیں جنکے مزارات اور درگاہیں مقبولِ خاص و عام ہیں۔ اِن میں زیادہ تر ایسے بھی ہیں جو اپنے وقت میں تو بہت ہی مقبول رہے لیکن حالات نے اُنکے مزاروں کا ساتھ نہ دیا اور وہ ۱۸۵۷ء کے غدر کی تباہی میں یا اُسکے بعد ختم ہوتے رہے۔ ایسے ہی مزاروں میں اپنی بدحالی پر آنسو بہاتا ایک بیحد قدیم مزار کربلا مصاحب الدولہ کے نزدیک دریائے گومتی کے کنارے ایک اونچے ٹیلہ پر واقع ہے۔ لکھنؤ نشیب و فراز کا شہر ہے۔ یہاں بہت سے ٹیلے تھے جن پر صوفیاء کرام کا قیام تھا۔ انکا قیام ٹیلوں پر اسلئے ہوتا تھا تاکہ مسافروں کو دور سے اونچائی پر چراغ یا روشنی دکھے جس سے انہیں یہ پتہ چل سکے کہ یہاں پر بستی ہے۔ ٹیلہ شاہ نصراللہ دریائے گومتی کی سطح سے تقریباً ساٹھ – پینسٹھ فٹ کی بالائی پر ہے۔ شہنشاہ اکبر کے عہد کے اِس مزار میں شاہ نصراللہ اور اُنکے بھائی شاہ سکندر کی قبور ہیں۔ جس مقام پر شاہ نصراللہ کا وصال ہوا تھا اسی مقام پر اُنکی قبر بنا دی گئی تھی۔ در اصل صوفیاء جس جگہ وفات پاتے تھے وہیں دفن بھی قرار پاتے تھے (جیسا کہ جِس مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی اُسی مقام پر دفن ہوئے)۔ شہنشاہ اکبر جب لکھنؤ آئے تھے تو شاہ نصراللہ کے مراقبہ کے باہر دق الباب کیا تھا لیکن مصروفِ عبادت ہونے کے سبب شاہ نے دروازہ نہیں کھولا چنانچہ اکبر کو واپس ہونا پڑا۔
اسی عہد کی ایک بیحد قدیم مسجد بھی مزار کے نزد واقع ہے۔ جسکی متعدد مواقع پر تعمیرِ نو ہوتی رہی ہے البتہ مسجد کا قدیم حصہ ابھی تک باقی ہے۔ مزار کے دروازہ کے سامنے ایک بیحد خستہ حالت میں محفل خانہ بھی ہے۔ جو عموماً بند رہتا ہے اور عرس کے موقع پر کھلتا ہے۔ شاہ نصراللہ کا سالانہ عرس رجب ماہ کی گیارہویں تاریخ کو ہوتا ہے۔ مزار کے اطراف میں بہت قدیم قبریں ہیں جن میں شیخ امام بخش ناؔسخ کے والدین کی بھی قبور ہیں۔ غلام ہمدانی مصحفیؔ بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔ لیکِن قبر کا نشان مٹ گیا ہے۔ شاہ نصراللہ کے مزار اور ناؔسخ کے والدین کی قبور کے درمیان ایک کنواں بھی ہے جو زمانۂ قدیم سے ہے لیکِن اب ڈھانک دیا گیا ہے۔ مزار کے داخلی دروازہ پر پنجتن پاک علیہم السلام کے اسماء مبارک لکھے ہیں۔ اندر داخل ہونے پر معلوم ہوتا ہے جیسے پورا مزار خوشبو سے پر ہے۔ اِس قدیم طرزِ تعمیر پر مبنی مزار، محفل خانہ اور قبرستان کے نگراں عبدالصمد صاحب بتاتے ہیں کہ اسکی اراضی پانچ سو (۵۰۰) بیگھا تھی۔ جو کہ جدید تعمیرات کے سبب اب مختصر رہ گئی ہے۔ قبرستان کی چہار دیواری کی تعمیر کچھ چھ – سات سال قبل ہوئی ہے۔ اسی ٹیلہ سے چند قدم کے فاصلہ پر ایک اور تاریخی ٹیلہ ہے جس پر شاہ احتشام اور شاہ مدی مدفون ہیں۔ یہ قبور بھی زمانۂ قدیم کی ہیں۔
اِن مٹتے ہوئے اثاثوں کی بازیابی اگر وقت رہتے نہ کی گئی تو وہ وقت دور نہیں کہ جب ہماری بے توجہی کے سبب یہ چند آثار بھی اپنے نام و نشان کھو دیں۔