سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اصلاحاتی عمل سے خواتین سب سے زیادہ خوش ہیں۔ خواتین نے اس آزادی کے نیتجے میں کھلے عام سگریٹ نوشی کا لطف بھی لینا شروع کر دیا ہے۔
بیسویں صدی کی یورپی خواتین کی طرح سعودی خواتین میں اصلاحات کے نتیجے میں ملنے والی رعایتوں کے بعد خاص طور پر کھلے عام سگریٹ نوشی شروع کر دی ہے۔ سبھی سعودی خواتین ایسا نہیں کرتیں لیکن تعلیم یافتہ اور لبرل سوچ کی حامل نوجوان خواتین کو یہ مرغوب ہے۔ کئی خواتین ای سگریٹ کے ساتھ ساتھ شیشے کا بھی لطف اٹھاتی ہیں۔ یورپ میں سگریٹ نوشی کو نسائی آزادی کی علامت کے طور پر لیا گیا تھا۔
ایسی ہی ایک سعودی خاتون ریما کو کھلے عام سگریٹ نوشی کرنے پر بے پناہ مسرت حاصل ہوئی۔ انہوں نے دارالحکومت ریاض کے اشرافیہ والے علاقے میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر سگریٹ نوشی کرتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ وہ حال ہی میں ملنے والی آزادی کا پورا لطف لینا چاہتی ہیں اور اس آزادی ہی کی وجہ سے وہ اس طرح سگریٹ پینے میں بہت خوشی حاصل کر پائی ہیں۔
حالیہ مہینوں میں سعودی عرب کے عوامی مقامات پر خواتین کے سگریٹ پینے کے رجحان میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے اصلاحاتی پروگرام سے قبل اس طرح عورتوں کا سگریٹ پینا اس انتہائی قدامت پسند مسلمان ریاست میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ سعودی ولی عہد اپنے ملک کا تشخص اعتدال پسند اور بزنس فرینڈلی بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
سعودی عرب میں خواتین کو کاریں چلانے کی اجازت حاصل ہو چکی ہے۔ وہ کھیلوں کے مقابلے دیکھنے بھی جا سکتی ہیں۔ انہیں بالغ ہو کر کسی مرد سرپرست کے بغیر بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ سعودی خواتین اس تبدیلی کو تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیتی ہیں۔
ریما نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے تاثر کو قبول کرنے سے انکار کیا لیکن انہیں اپنے خاندان کی ناراضی پر کسی حد تک فکر لاحق ہے۔ ریما کے مطابق انہوں نے تمباکو نوشی دو برس قبل شروع کی تھی۔
نہوں نے واضح کیا کہ وہ سگریٹ پینے کو ایک فرد کی آزادی کے طور پر اپنے خاندان کو قائل نہیں کر سکتیں کیونکہ انہیں کھلے عام مردوں کی طرح عورتوں کا سگریٹ پینا درست نہیں لگتا۔ ریما نے یہ گفتگو ایک فرضی نام اختیار کرتے ہوئے کی۔
اسی طرح ایک اور سعودی نوجوان خاتون نجلا نے بھی فرضی نام کے ساتھ بتایا کہ سعودی معاشرت میں تیز تر اصلاحاتی عمل کے ساتھ ساتھ اب بھی دوہرے معیار برقرار ہیں۔ نجلا کے مطابق قدامت پسند سعودی معاشرے میں سگریٹ نوشی ایک معیوب اور بے توقیری کا عمل قرار دیا جاتا ہے۔
ریما نے یہ بھی بتایا کہ اس کی دوست کو جب سگریٹ پیتے اس کے والدین نے دیکھا تو انہیں یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ ان کی بیٹی نشے کی علت میں مبتلا ہے۔ سعودی خاتون کی دوست کو اُس کے والدین انسداد نشہ کے کلینک لے گئے تا کہ وہ تمباکو نوشی سے نجات حاصل کر سکے۔
سعودی عرب میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ہائی اسکول تک پہنچنے والی پینسٹھ فیصد طالبات تمباکو نوشی کا شوق اپنا لیتی ہیں۔ وہ سب کچھ خفیہ انداز میں کرتی ہیں تا کہ والدین اور خاندان سے ان کی یہ عادت چھپی رہے۔ یہ بات کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی میڈیکل فیکلٹی نے اپنی ایک ریسرچ رپورٹ میں بتائی ہے۔
source: QaumiAwaz