لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت پرا یک نظر
ہندوستانی تہذیب ایک مخلوط تہذیب ہے، خاص طور سے شمالی ہند میں بقول فراق گورکھپوری۔
سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراق
قافلے آتے گئے ہندوستان بستاگیا۔
سچ ہے کہ ہندوستانی تہذیب بڑی جاذب نظر ہے جس میں صدیوں کی داستان پوشید ہ ہے، حضرت عیسی سے قبل ۵۰۰۰(پانچ ہزار) سال کی تاریخ کا حوالہ تحریروں میں درج ہے، قدیم ھجری عہد سب سے لمبا عہد تھا پھر معدنیات کا پتہ لگا، اور تہذیب میں بدلاؤ آیا، دھیرے دھیرے جدید عہد میں انسان نے کافی ترقی کی اور یہ سچ ہے کہ جب انسان زندگی گذار نے کی اشیاء فراہم کرلیتا ہے، تو وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں فنون لطیفہ میں بروئے کارلاتا ہے، ورنہ وہ صرف غذا کی خاطر جنگوں میں بھٹکتا پھرتا ہے، ہندوستان ، جنوبی افریقہ، مغربی یورپ اور جنوبی ہندوستان میں کھدائی میں پائی جانے والی اشیاء میں جو مشابہت ہے وہ قدیم عہد کے لوگوں کی جدوجہد کو ظاہر کرتی ہے، نیز یہ کہ انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ گھوم گھوم کر اپنی ضروریات زندگی فراہم کرتے تھے، ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں قدیم زمانے سے ہی دیگر اقوام کے آنے کا سلسلہ یہاں کی مخلوط تہذیب کی طرف اشارہ کرتا ہے، در اصل یہ دیگر اقوام کے انجزاب سے ہی ممکن ہے، کہ یہاں رنگا رنگ تہذیب دیکھنے کو ملتی ہے، دلی جوکہ ہندوستان کا دل کہاجاتا ہے، لودھی حکومت میں سکندر لودھی نے سلطنت کو آگرہ میں منتقل کیا، اور مغل حکمرانوں میں بابابر، ہمایو اوراکبر وجہانگیر نے آگرہ سے ہی ہندوستان پر حکومت کی مگر شاہجہاں بادشاہ نے دہلی کو پایہ تخت بناکر اسے وہ عظمت عطاکی کہ آج پھر دہلی ہندوستان کادل وجاں ہے، دہلی کے بعد اگرکسی ریاست کا نام آتا ہے، تووہ لکھنؤ ہے،جہاں ایرانی نزاد نوابین اودھ نے راج کیا، اور گیارہ(۱۱) نوابوں نے اسے ایسی ترقی دی کہ ساری دنیا میں شہرہ ہوگیا، گرجہ آج لکھنؤ کی صورت بدل گئی ہے، مگر مشرقی تمدن کا آخری نمونہ اپنے دھندھلے نقوش کے ساتھ آج بھی جلوہ گر ہے۔
کھنؤ کی تہذیب وثقافت کی داغ بیل دنیا کے دوسرے حاتم زماں نواب آصف الدولہ کے زمانے میںیعنی ۱۷۷۵ء میں پڑی، اس دوران ایرانی، تورانی، اور خاص طور سے دہلی سے آکر لوگ یہاں بس رہے تھے، اور لکھنؤ ہمہ جہت ترقی کی راہوں پر گامزن تھا، لکھنؤ کی وضعداری اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھی، وضعداری بہ نام ہمدردی ، ایمانداری، حیا، سخاوت، قناعت، قوت برداشت ، خود داری، محنت، وقت کی قدر وقیمت وپابندی، سچائی کی سچی اور اقوام کی سچی یکرنگی کی تصویر یں اس وقت لکھنؤ کے عوام وخاص تھے، شرافت لباس، لباس سے لیکر زندگی کے ہر شعبے میں سرائیت کر گئی تھی، اور یہ سب کچھ اپنے عروج پر پہنچ کر واجد علی شاہکے زمانے تک قائم رہا، یہ عرصہ لکھنؤ کے لئے ایک حسین خواب سے کم نہ تھا، اس فضا کو سنوار نے میں صدیوں کی محنت اورکاوش درکارتھی، جب شیخوں نے غلبہ کیا تو یہ تعلقے جیوں کی تیوں قائم رہے، اور جب نوابین اودھ کا دور ہوا تو انھوں نے تعلقہ داروں کے حقوق بحال رکھے، بلکہاپنے صوبہ کی ترقی میں مدد گار کی حیثیت سے خیال کیا، یہ تعلقہ دار موسیقی، آرٹ، ادب کے ساتھ تعمیرات میں بھی دلچسپی رکھتے تھے، اردو ادب کی ترقی بھی اسی زمانے میں اپنے عروج پر تھی، بلکہ یہ کہاجائے کہ اردو زبان اسی دور ثقافت میں پروان چڑھی تو بجا ہے، لکھنؤ کی تہذیب گنگا جمنی تہذیب کے مترادف تھی ،حسن میں ہندو اور مسلمان دوبڑی قومیں ملکر ایک رنگ ہوگئیں تھیں، او ر اس درجہ خلط ملط ہوئیں کہ ایک نے دوسرے کے کلچر کو اپنانے میں کوئی برائی نہ سمجھا ، اور نتیجہ ایک مشترکہ کلچر کی کی شکل میں رونما ہوا، یعنی ہندو تعزیہ داری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، اور مسلمان حکمراں سے لیکرعوام تک ہولی، دیوالی، بسنت کے تیوہار مل جل کر مناتے تھے، ہر طرف خوشحال تھی، بڑے بڑے مشاعرے منعقد کئے جاتے تھے، اور انعام واکرام سے نوازا جاتا، لکھنؤ کی شاعری باقاعدہ ایک دبستان کی حیثیت اختیارکرچکی تھی، دہلی کے بعد لکھنؤ ہی ایک جائے پناہ تھی، چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی ان ثقافتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں، جن میں ریاست محمودآباد کا نام سہر فہرست ہے، جس سے شہرۂ آفاق شاعر وادباء وابستہ رہے جن میں عزیز لکھنوی، ظریف لکھنوی، مرزا محمد عسکری،مانی جائسی، ریاض خیر آبادی، جالب دہلوی، سجاد حیدر پلدرم، اور سجاد حسین وغیرہ کے نام خاص ہیں، تعلقہ دار خود اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔
۱۷۷۵ء سے ۱۸۵۴ء تک اودھ کا یہ دور اپنی اعلیٰ تہذیب و ثقافت کے لئے دنیا میں مشہور ہوگیا، اس دوران سیاسی حالات سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو نوابین اودھ نے وہ تہذیبی روایات عطا کیں جونہ اس سے پہلے تھیں اور نہ اس کے بعد انکا نشان پایاجاتا ہے، نواب آصف الدولہ نے عمارتوں کا سلسلہ قائم کیا، اور آصفی امام باڑہ، اور رومی گیٹ کی تعمیر کرائی، لکھنؤ کو فخر البلاد آصف الدولہ نے بنایا، لکھنؤ باغوں کا شہر کہاجانے لگا، لکھنؤ کی خاص تہذیب کو سمجھنے کے لئے تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرنی ہوگی، مگر اس وقت صرف اس بیان سے اکتفا کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے قیام اور استحکام کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں خاص طور سے شمال ہند میں ترک، افغان، اور مغلوں نے جس تہذیب کا تخم بویاتھا اسی کا ثمرہ تھاکہ نوابین اودھ نے اسے تناور بنادیا، آج دنیا میں لکھنؤ بہ نام خوبصورت عمارت ، ہندومسلم یکجہتی اور اعلیٰ ثقافتی کارناموں کے لئے مشہور ہے، رجب علی بیگ سرورکا یہ بیان لکھنؤ پر صاد ق آتا تھا۔
سنا ر منواں بھی جس کا خوشہ جبیں ہے
وہ بیشک لکھنؤ کی سرزمیں ہے
آصف الدولہ کے وقت میں ریاست بریلی، لکھنؤ اور الہ آباد یعنی صرف تین(۳ )صوبوں میں منقسم رہ گئی تھی سعادت علی خاں ، آصف الدولہ کے بعد نواب ہوئے، چونکہ انگریزوں نے نواب آصف الدولہ کے بیٹے وزیر علی کو حق حکومت وسلطنت سے محروم کرکے نواب سعادت علی خاں کو لکھنؤ کا نواب بنایاتھا، اور اس کے صلے میں الہ آباد اور کڑا کے علاقے ان سے لے لئے تھے، انگریزوں کی ریشہ دوانیوں نے اودھ کی سلطنت کو کھوکھلا کرنا شروع کردیاتھا، اسی لئے کہابھی جاتا ہے کہ از سعادت تابہ سعادت، یعنی سعادت خاں برہان الملک سے لیکر سعادت علی خاں تک کا عہد سیاسی اعتبارس ے قدرے سکون کا تھا، لیکن بعد میں انگریزوں نے دست دراز یاں، شروع کردی تھیں، دھیرے دھیرے نوابین کے اقتدار کم ہوتے گئے، اور واجد علی شاہ کے دور تک آتے آتے یہ حکومت اپنی بساط کھو بیٹھی، اور صرف تاریخ کے اوراق میں رقم ہوگئی۔
لکھنؤ کی تہذیب جسے نوابین اودھ نے سجایا ، سنوارا، وہ در اصل ایرانی تہذیب تھی، جس میں ہندو اور مسلمان تہذیب کے عناصر شامل ہوگئے، سعادت خاں برہان الملک اودھ کے پہلے صوبے دار کافی تجربے کا ر اور مدبر تھے، انھوں نے اپنے بھانجے اور داماد ابوالمنصور صفدر جنگ کو نائب صوبے دار کا عہدہ دلاکر سرفراز کیا، ان کے لئے شجاع الدولہ نے فیض آباد کو رونق بخشی ، جنگی شادی دل کے بادشاہ کی منھ بوبیٹی آمنہ الذھرا سے ہوئی تھی، جو اپنے ساتھ کافی جہیز لیکر آئی تھی، جو آئندہ اودھ کی خوشحالی میں معاون ثابت ہوا، امۃ الذھراء کو بہوبیگم، کاخطاب ملاتھا، شجاع الدولہ کے حرم میں سب سے زیادہ مرتبہ بہوبیگم کو حاصل تھا، فیض آباد کی تاریخ میں یہ نام درخشاں ہے، ا ن کا مقبرہ شمالی ہندوستان کی عمارتوں میں نایاب ہے، مگرمخفی ہے، لوگوں کی نظروں سے یعنی اسکی قدرو قیمت سے بہو بیگم کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جس وقت آصف الدولہ لکھنؤ کو استحکام بخش رہے تھے، اس وقت بھی بہو بیگم کے خزانے ہی ان کے کام آئے، بکسرکی لڑائی میں بھی انکا خزانہ کام آیا، بہوبیگم کچھ دنوں آصف الدولہ کے ساتھ لکھنؤ میں بھی رہیں، کہاجاتا ہے کہ انکی لکھنؤ آمد پر شاہراہوں پر اشرفیاں لٹائی گئیں تھیں، وہ انگریزوں کی شازشوں کا شکار بھی ہوئیں، ۱۸۱۶ء میں انکا انتقال ہوا، اور اسی کے بعد فیض آباد کی رونقیں زوال پذیر ہوئیں۔
بہوبیگم کی ساس یعنی ابوالمنصور صفدر جنگ کی زوجہ نواب بیگم جنہیں صفدر جہاں بیگم کا خطاب ملاتھا، محل میں انہیں نواب بیگم ہی کہاجاتا تھا، بہت ہوشیار اور اعلیٰ مرتبت خاتون تھیں، آصف الدولہ ہو بیگم کے بیٹے تھے، انکی شادی دیوان دلی کے امتیاز الدولہ کی دختر شمس النساء بیگم سے ہوئی تھی، جس میں ۱۷۴۹ء میں شاہ عالم باد شاہ خود نفس بہ نفیس شریک ہوئے تھے، بیگمات اودھ میں آخری تاجدار اودھ بیگم حضرت محل کا نام بھی درخشاں ہے جو اپنے بیٹے برجیس قدر کی ایک سال تک عہدۂ بادشاہت کی سرپرستی کرتی رہیں، اور جب انگریزوں کی شور ش حد سے بڑھی تو کبھی ہاتھی، اور کبھی گھوڑے پر برجیس قدرکوساتھ لئے ہوئے مورچہ جماتی تھیں، جب ایک شہر ہاتھ سے سنکل جاتاتھا تودوسرے شہر کی جانب رخ کرتی تھیں، انھوں نے جنگ ضرور ہاری مگرہمت نہ ہاری تھی، انھوں نے انگریزوں کے وظیفے کو ٹھکرادیا،ہمالیہ کی ترائی میں انگریزوں کی فوج کادفاع کرتی رہیں، آخر نیپال میں انھوں نے اپنی زندگی گزاری ، اور وہیں مدفون ہوئی۔
ڈاکٹررقیہ جعفری
ریڈر اردو
فیض آباد ، یوپی
Contact: +91 9415918976