بی جے پی نے ہندوستانی جمہوریت کی 70 سالہ تاریخ کو دھچکہ پہنچانے کا سارا بندوبست کرتے ہوئے دہلی پر قبضہ کرنے کے لیے کوئی حربہ نہیں چھوڑا تھا۔
متنازعہ شہریت قانون کے خلاف تحریک کا مرکز بنے شاہین باغ تک کرنٹ پہنچانے اورتحریک کاروں کی توہین کرنے والوں کو دہلی نے ایسا کرنٹ لگا یا ہے جسے مستقبل قریب میں بھول پانا آسان نہیں ہوگا۔ راجدھانی کے باشعورعوام نے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو اقتدارسونپ کر بی جے پی کی نفرت آمیز سیاست کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کیا ہے۔ساتھ ہی ہندوستان کے سیکولر کردار کو داغدارکرنے کی کوشش کرنے والوں کو سیکولر عوام نے یکسر مسترد کرکے پولرائزیشن کی سیاست کرنے والوں کی دکان کا شٹر ڈاﺅن کر دیا ہے اور ’غداروں‘ کو گولی مارنے والوں کو بھی بتا دیا ہے کہ غدار کون ہے اور جمہوریت میں غداروں کو کیسے گولی ماری جاتی ہے۔ دہلی کے انتخابات سے صاف ہوگیا ہے کہ بی جے پی کے پاس قابل اور تجربہ کار لیڈرنہیں ہیں بلکہ صرف ہندو مسلم، پاکستان کے نام پر ووٹ مانگنے اور عوام کو منقسم کرنے کی بات کرنے والے انتہا پسندوں کی ٹولی ہے۔
بی جے پی کے قائدین میں سیاسی صلاحیت موجود ہے تو انہیں دہلی کے نتائج سے سبق لینا ہوگا۔ بصورت دیگروہ دن دورنہیں جب عوام نے جس پارٹی کو سبق سکھایا ہے وہ سبق یاد کرنے کے بھی قابل نہیں رہے گی۔ یہاں بی جے پی کی شرمناک شکست کی اصل وجہ اس نے اقتدار کے لئے ایک کے بعدایک جھوٹ بولے تھے۔عام آدمی پارٹی کو 2015 کے مقابلے کم سیٹیں ملی ہیں اور اسے 7حلقوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔پھربھی70 رکنی ایوان کے اندر عام آدمی پارٹی کو اکثریت سے زیادہ 62سیٹوں پر کامیابی ملی ہے۔ حالانکہ ان انتخابات میں بی جے پی کے اہم قائدین نے جس فرقہ وارانہ خطوط پر ملک کو تقسیم کرنے کی سازش کے تحت انتخابی مہم چلائی تھی اس پر اندیشہ بڑھ گیا تھا کہ عام آدمی پارٹی کا ووٹ کاٹ دیا جائے گا لیکن عوام کی اکثریت نے بی جے پی کے ذریعہ بتائے گئے’دہشت گرد‘ کو سرآنکھوں پر بٹھایا۔ یا یوں کہا جائے کہ مقدر کا سکندر بننے اورقوت حاصل کرکے اقلیتوں کو کچلنے کا خواب دیکھنے والوں اور جمہوریت و سیکولر دشمن طاقتوں کوعوام نے سزا دی ہے۔
سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں تقریباً ڈیڑھ ماہ سے جاری احتجاج کو اپنی انتخابی مہم کا اہم موضوع بنا کربی جے پی کے ذریعہ 8 فروری کے انتخابات کے لیے انتہائی نفرت انگیز مہم چلانے کے باوجود اسے کامیابی نہیں ملی۔ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ 2015 کی طرح اس بار بھی عام آدمی پارٹی زبردست اکثریت کے ساتھ حکومت بنالے گی گوکہ اس کی چند سیٹیں کم ہوگئی ہیں لیکن اس کے ووٹ کا فیصد بڑھ گیا ہے۔ اس بار اسے 54 فیصد سے زیادہ ووٹ ملا ہے لیکن بی جے پی کے لیڈروں نے انتخابی مہم کے دوران جو زہر اگلا تھا اس نے بھی اپنا کچھ اثر ضرور دکھایا ہے اوربی جے پی کو 40 فیصد ووٹ حاصل ہوا۔اس کی سیٹوں میں بھی چند کا اضافہ ہوا۔ وہیں کانگریس پارٹی کولےکر یہی کہا جا سکتا ہے کہ دہلی کے عوام کی نظریں صر ف دو حکومتوں کے بیچ مقابلہ پر ٹکی رہیں اس لئے عوام کی نظر میں کانگریس انتخابی منظر سے باہر رہی۔ عوام کی نظر میں مرکز کی مودی حکومت اور دہلی کی کیجریوال حکومت تک محدود رہی۔
حالیہ انتخابی مہم کے علاوہ بی جے پی کے قائدین خاص کر وزیر اعظم نریندر مودی،وزیردفاع راجناتھ سنگھ اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے شاہین باغ کو نشانہ بنایا تھا۔ بی جے پی کے قائدین نے شاہین باغ کے احتجاجیوں کو دہشت گرد اور اس کی تائید کرنے والوں کو پاکستان حامی بتایا تھا۔ بی جے پی قائدین کے اشتعال انگیز بیانات کو سارا ملک پڑھ رہا اور دیکھ رہا تھا۔ قوم پرستی کا لبادہ اوڑھنے والی بی جے پی نے دہلی کے انتخابات میں ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا نیا طریقہ اختیار کیا لیکن عوام کی اکثریت نے اس نظریہ کو مسترد کردیا۔ بی جے پی نے ہندوستانی جمہوریت کی 70 سالہ تاریخ کو دھچکہ پہنچانے کا سارا بندوبست کرتے ہوئے دہلی پر قبضہ کرنے کے لیے کوئی حربہ نہیں چھوڑاتھا۔اس کے لئے بی جے پی نے اپنے 250 ارکان پارلیمنٹ کو انتخابی دنگل میں اتاردیا تھا،70 مرکزی وزراء کے علاوہ11صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بلا کرجم کرزہرافشانی کی گئی۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دہلی میں کئی روز ٹھہر کر زہر اگلا۔ یہی نہیں خود وزیر اعظم نے ریلیاں کیں۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے طوفانی دورے کئے اور لوگوں کے دروازوں اور گلی کوچوں کی خاک پھانکتے ہوئے ہاتھ جوڑجوڑ کر ووٹ مانگے تھے۔ شاہ نے بابر پور کی ریلی میں لوگوں سے اپیل کی کہ اتنی زور سے ای وی ایم کا بٹن دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے۔ یہی بات انہوں نے نجف گڑھ میں بھی دوہرائی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان دونوں علاقوں کے ووٹروں نے اتنی زور سے بٹن دبایا کہ خود بابر پور اور نجف گڑھ میں ہی بی جے پی کے امیدواروں کو منہ کی کھانی پڑی۔ یعنی امت شاہ کے نفرت آمیز بیان کا کرنٹ خود بابر پور میں ہی نہیں لگ سکا۔ ووٹروں نے ’غداروں‘ والے انوراگ ٹھاکراور ’پاکستان‘ والے کپل مشرا کے گلے میں بھی ذلت وحقارت کا ہار ڈال دیا۔ جہاں تک شاہین باغ تک کرنٹ پہنچنے کی بات ہے تو اس کرنٹ کا تجربہ ناکام رہا ہے۔ شاہین باغ کا علاقہ اوکھلا اسمبلی میں پڑتا ہے جہاں سے عام آدمی پارٹی کے امیدوار امانت اللہ خان نے ایک لاکھ 30ہزار ووٹ حاصل کرکے بی جے پی کے امیدوار کو72 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے پٹخنی دی۔
source: QaumiAwaz