آپؑ نے مسلمانوں کے اندرونی اختلافات میں اسلام وامت کی مصلحتوں ومفادات کو ہر چیز پر ترجیح دی اور کسی بھی قسم کے افتراق کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔
آج 19 رمضان تاریخ اسلام کی اس عظیم ہستی سے منسوب ہے جس کی ذات گرامی بہت سے کمال و خوبیوں کی جامع ہے۔ آپ شیر خدا بھی ہیں اور داماد مصطفےٰؐ بھی، حیدر کرار بھی ہیں اور صاحب ذوالفقار بھی، حضرت فاطمہ زہرہ کے شوہر نامدار بھی اور حسنین علیہم السلام کے والد بزرگو ار بھی، صاحب سخاوت بھی اور صاحب شجاعت بھی، عبادت و ریاضت والے بھی اور فصاحت و بلاغت والے بھی، علم والے بھی اور حلم والے بھی، فاتح خیبر بھی اور میدان خطابت کے شہسوار بھی، غرضیکہ آپ بے شمار کمال و خوبیوں کا مجموعہ ہیں اور ہر ایک میں ممتاز ویگانہ روزگار ہیں۔
پیغمبر اسلامؐ کی زیر سرپرستی تربیت، نوجوانی کے ایام، مکہ میں بعثت اور دعوت الہی کے سر آغاز اور مشکلات و سختیوں سے بھر پور زمانہ، جوانی مدینہ میں، اسلامی معاشرے کا قیام، اسلام کے نشرو فروغ، جنگ وجدال اور فتح و کامیابی میں صف اول کے مجاہد وسپہ سالار حضرت علی کی زندگی مجاہدت، عبادت، عشق خداوندی، اطاعت رسول، دین کا تحفظ اور اشاعت اسلام سے بھری ہے۔ مسجد میں شہادت’ فزت و رب الکعبہ‘ کے ساتھ آپ نے دنیا کو اہم پیغام دیا کہ ان تمام لازوال اور عظیم جدوجہد اور قربانیوں کا اصل مقصد اپنے پروردگار سے شہادت کے ساتھ ملاقات ہے۔
حضرت علی علیہ السلام 19 رمضان 40ھ کی شب بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے اور یہ رات نہایت عجیب اور آنحضرت کے حالات غیر عادی تھے اور ان کی بیٹی ایسے حالت کا مشاہدہ کرنے سے نہایت حیران اور پریشان تھی۔ روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت اس رات بیدار تھے اور کئی بار حجرے سے باہر آکر آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے: خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹا کہا گیا ہے۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شہادت کا وعدہ دیا گیا ہے۔ بہر حال نماز صبح کے لیے حضرت علی مسجد کوفہ میں تشریف لائے اور سوئے ہوئے افراد کو بیدار کیا۔
حضرت علیٰ نے عبدالرحمن بن ملجم مرادی کو بھی جو زہر بجھی تلوار چھپائے ہوئے پیٹ کے بل سویا ہوا تھا، بیدار کیا اور کہا کہ اے ابنِ ملجم اٹھ جا، نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے نماز ادا کر۔ جب آپؑ محراب میں داخل ہوئے اور نماز شروع کی، پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ شقی ترین شقی عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے زہرآلود تلوار سے حضرت علی کے سر مبارک پر حملہ کر دیا اور آنحضرت کا سر سجدے کی جگہ (ماتھے) تک شگاف ہوگیا۔ حضرت علی علیہ السلام محراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا ’فزت و ربّ الکعبہ‘ رب کعبہ کی قسم، میں کامیاب ہو گیا۔
حضرت علی کے سر سے خون جاری تھا فرمایا: یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ نے میرے ساتھ کیا تھا۔ حضرت علی چونکہ اس حالت میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں رکھتے تھے اس لیے اپنے بڑے فرزند امام حسن مجتبیٰ سے نماز جماعت مکمل کرانے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی۔ روایت میں آیا ہے کہ جب عبدالرحمن بن ملجم نے حضرت علی پر شمشیر ماری زمین لرز گئی، دریا کی موجیں تھم گئیں اور آسمان متزلزل ہوا، مسجد کوفہ کے دروازے آپس میں ٹکرائے، آسمانی فرشتوں کی صدائیں بلند ہوئیں، کالی گھٹائیں چھا گئیں، اس طرح کہ زمین تیرہ و تار ہو گئی۔
جبرئیل امین نے صدا دی اور ہر کسی نے اس آواز کو سنا، وہ کہہ رہا تھا: خدا کی قسم ہدایت کے رکن کو توڑا گیا، علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گیا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گیا اور عروة الوثقی کو کاٹا گیا کیونکہ رسول خداؐ کے ابن عم کو شہید کیا گیا۔ اس طرح بہترین پیشوا، عادل امام، حق طلب خلیفہ، یتیم نواز اور ہمدرد حاکم، کامل ترین انسان، خدا کا ولی، رسول خداؐ کے جانشین کو روئے زمین پر سب سے شقی انسان نے قتل کر ڈالا اور وہ لقاء اللہ کو جاملے، الہٰی پیغمبروں اور رسول خداؐ کے ساتھ ہم نشین ہوئے اور امت کو اپنے وجود بابرکت سے محروم کر گئے۔
ادھر ابن ملجم کو گرفتار کر کے علی کے پاس لایا گیا، حضرت علی نے اپنے بیٹوں سے فرمایا کہ بیٹا سزا کے طور پر قاتل کو اتنا ہی زخم لگانا جتنا اس نے مجھے دیا ہے۔ یہ انصاف تھا جانشین رسولؐ کا۔ تین دن اس زخم کی شدت میں تڑپتے رہے، 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی۔ یہ شان ہے امام المتقین کی جنہیں علم تھا کہ آج انھیں قتل کر دیا جائے گا اور قاتل کو جانتے بھی تھے کہ کون ہے مگر اپنے رب کی رضا کے لیے قربانی پیش کی۔ پہلی قربانی باپ نے دی، آخری قربانی کربلا میں بیٹے امام حسین نے دی اور دین کو بچا کر سبق دیا کہ کبھی باطل کے سامنے جھکنا نہیں، چاہے سر کٹانا پڑے۔
حضرت علی کی ولادت اللہ کے گھر میں ہوئی اور اللہ کے گھر میں شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ آپ کی ولادت و شہادت کے درمیان کی زندگی اطاعت وعبادت اور اللہ کی راہ میں گزری، یعنی علی ایک کامل اور کامیاب انسان کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ آپ کی نظر ظاہری کامیابی پر نہیں بلکہ اللہ کی رضایت، اطاعت رسولؐ اور دین کا تحفظ آپ کا مطمع نظر تھا۔ آپ نے الہٰی وانسانی اقدار اور اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے زندگی گزاری۔ آپ کی انفرادی، گھریلو، اخلاقی، معاشرتی زندگی قرآن وسیرت نبوی کا کامل وعملی نمونہ ہے کیونکہ آپ کی پرورش بچپن سے ہی پیغمبرؐ کے دامن میں ہوئی۔
نزول قرآن کے ساتھ نوجوانی کے ایام سے نور وحی سے آپ کا وجود روشن اور منور ہوا۔ زندگی بھر رسول اسلامؐ کے ساتھ سایہ بن کر رہے۔ اس لیے آپ کا مقام، فضیلت، کمالات اور قربانیاں بھی سب سے نمایاں ہیں۔ جس نے پیغمبرؐ کے بعد آپ کو معرفت، علم، تقوی، شجاعت، سخاوت، دیگر تمام اخلاقی اوصاف میں ایک ممتاز مقام امت میں عطا کیا ہے۔ ان میں سے ایک اہم پہلو سیاسی میدان ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دور خلافت میں حکمرانی کا وہ تاریخی نمونہ پیش کیا کہ مالک اشتر کے نام آپ کا لکھا گیا خط (آئین حکمرانی) بین الاقوامی منشور کا حصہ قرار پایا۔
دنیا میں اقتدار کی خاطر اسلامی وانسانی اصول پامال کئے جاتے ہیں۔ سیاست میں کوئی الہی بلکہ انسانی واخلاقی معیار نہیں، مخالفت میں ہر حدود سے تجاوز، جھوٹ، تہمت، توہین، ضمیر کو چند سکوں کے عوض بیچنا، سیاہ کو سفید، سفید کو سیاہ بنانا معمول ہے۔ کرسی، دولت وشہرت کے لیے کسی اخلاقی اصول کی رعایت نہیں کی جاتی۔ مگر حضرت علی کی سیرت، زندگی، طرز حکمرانی، وسیلہ اور ہر چیز میں عدالت کو معیار قرار دینا جیسے اصول، آپ سے اسلامی معاشرہ سیکھ سکتا ہے۔ اسی بنا پر آپ کو شہید عدالت کہا جاتا ہے۔ آپ نے اقتدار کی خاطر اسلامی وشرعی اصولوں کا سودا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اصولوں پر ڈٹے رہے۔
آپ نے امت کو اتحاد، اتفاق اور اخوت وبھائی چارگی کا درس دیا۔ اسی لیے مسلمان مفکرین آپ کو وحدت کے لیے اسوہ قرار دیتے ہیں۔ آپؑ نے مسلمانوں کے اندرونی اختلافات میں اسلام وامت کی مصلحتوں ومفادات کو ہرچیز پر ترجیح دی اور کسی بھی قسم کے افتراق کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ علی کا درس اتحاد آج امت کے لیے انتہائی ضروری مسائل میں سے ہے۔ یہ اتحاد صرف اسلام ومسلمین کی خاطر تھا۔ ہم بھی ان سے درس اخوت لے کر مذہبی، قومی اور لسانی اختلافات کا خاتمہ کرکے ایک پرامن ومحبت والفت پر مشتمل معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
Source: QaumiAwaz