جامعہ کو آرڈنیشن کمیٹی کے ذریعہ جاری ویڈیو سے پریشان پولس نے جواب میں دوسرا ویڈیو جاری کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ طلبا نے پتھراؤ کیا تھا۔ اب انکشاف ہوا ہے کہ طلبا کے ہاتھ میں پتھر نہیں والیٹ تھا۔
جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی نے گزشتہ دنوں ایک ویڈیو جاری کیا تھا جس میں دہلی پولس کو طلبا پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور ویڈیو میں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ 15 دسمبر کو پولس کے ذریعہ جامعہ لائبریری میں گھس کر توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ اس ویڈیو سے تلملائی دہلی پولس نے اپنے دفاع میں ایک نیا ویڈیو جاری کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ طالب علم نے پولس پر پتھراؤ کیا تھا اور جب پولس نے کارروائی کی تو وہ لائبریری میں گھس گئے۔ اس کے بعد ہی پولس لائبریری میں گھسی تھی۔ لیکن ویڈیو میں جس طالب علم کے ہاتھ میں پتھر ہونے کی بات کہی جا رہی تھی اور مختلف الیکٹرانک میڈیا پر ’لال گولہ‘ لگا کر اس پتھر کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، وہ اصل معنوں میں پتھر تھا ہی نہیں۔
دراصل جاری نئے ویڈیو کا ’آلٹ نیوز‘ نے فیکٹ چیک کیا جس میں پتہ چلا کہ طالب علم کے ہاتھ میں پتھر نہیں بلکہ والیٹ یعنی پرس تھا۔ آلٹ نیوز نے سبھی انگریزی اور ہندی نیوز چینلوں کے اس دعوے کو سرے سے غلط ٹھہرا دیا جس میں کہا گیا تھا کہ جامعہ طالب علم نے پہلے پولس پر پتھراؤ کیا اور پھر اپنے بچاؤ کے لیے لائبریری میں داخل ہو گئے۔ آلٹ نیوز نے فیکٹ چیک کے دوران اخذ کیا کہ طالب علم کے ایک ہاتھ میں والیٹ ہے اور دوسرے ہاتھ میں موبائل ہے۔
آلٹ نیوز نے اپنے نیوز پورٹل پر اس ویڈیو کو سلو موشن میں کر کے دکھایا ہے جس میں صاف پتہ چلتا ہے کہ جسے لوگ پتھر سمجھ رہے تھے وہ والیٹ ہے۔ کچھ تصویریں بھی پیش کی گئی ہیں جس کو دیکھنے پر صاف پتہ چلتا ہے کہ جس ویڈیو کو دیکھ کر جامعہ طالب علموں پر میڈیا اور بی جے پی لیڈران سوال کھڑے کر رہے تھے، اس کی حقیقت بہت الگ ہے۔ اس انکشاف کے بعد یقیناً بی جے پی لیڈران کے ساتھ ساتھ دہلی پولس میں بھی سنّاٹا پسر گیا ہے۔ اب تک پولس یا پھر بی جے پی کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔