بی جے پی کی نظر میں شاہین باغ ہندوستان کی کوئی کالونی نہیں بلکہ پاکستان کا کوئی علاقہ ہے۔ وہاں بیٹھی ہوئی خواتین دہشت گرد ہیں۔ وہاں پاکستان کے حق میں نعرے اور ملک کو توڑنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
اگر اشتعال انگیزی اور دروغ گوئی کا کوئی عالمی مقابلہ ہو تو بلا شبہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے تمام حریفوں کو بہت پیچھے چھوڑتے ہوئے اول پوزیشن حاصل کرے گی۔ یوں تو بار بار بی جے پی رہنماؤں کی اس قابلیت و صلاحیت کا مظاہرہ ہوتا رہا ہے اور وہ ہمیشہ اس مقابلے میں دوسروں پر سبقت حاصل کرتے رہے ہیں۔ لیکن جب بھی کہیں الیکشن ہوتا ہے تو ان لوگوں کی یہ صلاحیت اور چمک اٹھتی ہے اور وہ بڑھ چڑھ کر اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ بھی کرنے لگتے ہیں۔
اگر انتخابات میں کوئی ایسا ایشو ہو جو مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہو تو کیا کہنے۔ پھر تو بڑے رہنماؤں سے لے کر چھوٹے رہنماؤں تک سب کی زبانیں دس دس گز کی ہو جاتی ہیں اور وہ مسلمانوں کے خلاف اس طرح زبان درازیوں پر اتر آتے ہیں کہ سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ جاتے ہیں۔ دہلی اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات کے دوران بھی بار بار اس کا مشاہدہ کیا گیا۔
اس بار ان کو شاہین باغ کا ایسا گرماگرم ایشو ہاتھ لگ گیا کہ کیا پوچھنا۔ حالانکہ یہ کوئی ایشو نہیں تھا۔ حکومت نے آئین مخالف جو شہریت ترمیمی قانون وضع کیا ہے اس کے خلاف تو پورے ملک میں احتجاج ہو رہا ہے۔ ڈیڑھ سو سے زائد شہروں میں خواتین دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ کہیں دس روز سے، کہیں پندرہ، کہیں بیس اور کہیں ایک ماہ سے بھی زائد عرصے سے۔
اس کے علاوہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ اور اساتذہ بھی اس قانون کے خلاف کھل کر میدان میں آگئے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں بہت کم مسلمان ہیں۔ اکثریت غیر مسلموں کی ہے۔ اس کے علاوہ عام شہریوں کے جو مظاہرے ہو رہے ہیں ان میں بھی اکثریت برادران وطن کی ہے۔ ابھی گوا میں عیسائیوں نے بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا۔ لیکن بی جے پی کو تو مسلمانوں سے محبت ہے۔ اس لیے ان کی نگاہوں میں وہی مظاہرے چبھ رہے ہیں جن میں مسلمان پیش پیش ہیں۔
خود شاہین باغ میں جہاں پندرہ دسمبر سے خواتین آئین کو بچانے کے لیے دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں وہاں بھی بردران وطن کی بڑی تعداد شریک ہے۔ مرد بھی اور عورتیں بھی۔ دور دراز سے لوگ آرہے ہیں۔ ہندو مذہبی شخصیات بھی وہاں پہنچ رہی ہیں اور عیسائی مذہبی شخصیات بھی۔ وہاں اتحاد بین المذاہب کا شاندار مظاہرہ بھی ہو رہا ہے۔ تمام مذاہب کی کتابیں پڑھی جا رہی ہیں۔ ہندو مذہب کی ایک اہم رسم یعنی ہون بھی کیا جا رہا ہے۔
لیکن بی جے پی کے لوگوں کو یہ چیزیں نظر نہیں آتیں۔ ان کو تو بس یہ دکھائی دیتا ہے کہ شاہین باغ ہندوستان کی کوئی کالونی نہیں بلکہ پاکستان کا کوئی علاقہ ہے۔ وہاں بیٹھی ہوئی خواتین دہشت گرد ہیں۔ وہاں پاکستان کے حق میں نعرے لگائے جا رہے ہیں اور ملک کو توڑنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ سیلم پور، جامعہ اور شاہین باغ کے دھرنے اتفاق نہیں بلکہ ملک کی سا لمیت کو کمزور کرنے والا تجربہ ہے۔ مودی جی یہ تجربہ ضرور ہے لیکن آئین کو بچانے والا تجربہ ہے۔
شاہین باغ کا نام آتے ہی بھاجپائیوں کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انھیں کوئی مرغوب غذا مل گئی ہے۔ جبھی تو بی جے پی کے ایک ایم پی یہ کہتے ہیں کہ شاہین باغ والے ہندووں کے گھروں پر حملے کریں گے اور ان کی بہن بیٹیوں کے ساتھ ریپ کریں گے۔ اس ایم پی کو اپنی زبان سے کیسے یہ بات کہتے بنی۔ اس کو غیرت نہیں آئی کہ شاہین باغ کی مخالفت میں اپنی ہی بہن بیٹیوں کی بے عزتی کر رہا ہے۔
ایک وزیر نے جن کو دروغ گوئی میں ملکہ حاصل ہے، کہہ دیا کہ شاہین باغ میں خود کش بمباروں کو ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ ایک ایم پی نے کہہ دیا کہ اگر ہندو جاگتے نہیں رہیں گے تو مغل راج واپس آجائے گا۔ ایک دوسرے نے کہا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال شاہین باغ والوں کو بریانی کھلا رہے ہیں۔ ایک وزیر اعلیٰ نے تو حد ہی کر دی۔ اس نے بولی کے بجائے گولی کا مشورہ دے دیا۔
کئی لوگوں نے کہا کہ ڈیڑھ ماہ سے دہلی کو بندھک بنا کر رکھا گیا ہے۔ پوری دہلی کو جام کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ خاتون مظاہرین نے ایک سڑک کے چھوٹے سے حصے پر قبضہ کیا ہے لیکن اسے ایسے پیش کیا جا رہا ہے جیسے کہ انھوں نے پوری دہلی کے ٹریفک کو درہم برہم کر دیا ہے۔ اگر اس راستے کو نہیں کھلوایا گیا تو دہلی میں جانے کیا ہو جائے گا۔ یہ بات تو درست ہے کہ کسی بھی سڑک کو بند نہیں کیا جانا چاہیے۔ اسی لیے بہت سے ہمدرد یہ مشورہ بھی دیتے رہے ہیں کہ مظاہرین دھرنا گاہ کو تھوڑا کھسکا کر راستہ کھول دیں۔ لیکن بہر حال اس مشورے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
یہ تو محض چند نمونے تھے ورنہ بی جے پی لیڈروں کی جانب سے شاہین باغ کے سلسلے میں جھوٹ پر جھوٹ بولے گئے ہیں اور اسے بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ اب جبکہ انتخابات ختم ہو گئے ہیں تو ممکن ہے کہ ان کی زبانیں بند ہو جائیں اور شاہین باغ کو اتنی شدت سے بدنام کرنے کا سلسلہ رک جائے۔ لیکن اگر ایسا ہوا بھی تو وہ لوگ کوئی دوسرا ایشو ڈھونڈ لیں گے اور ایک بار پھر اشتعال انگیزی اور دروغ گوئی کا مقابلہ شروع ہو جائے گا۔
source: QaumiAwaz